(ایجنسیز)
مصر کی عبوری حکومت نے واضح کیا ہے کہ پچیس جنوری 2011ء اور 30 جون 2012ء کے انقلابات میں مسترد شدہ سابق سیاست دانوں کا ملک کے مستقبل میں کوئی کردار نہیں ہو گا۔
عبوری صدر کے مشیر برائے سیاسی و اسٹریٹجیک امور مصطفیٰ حجازی کا کہنا ہے کہ جن سیاست دانوں یا سیاسی جماعتوں کو عوام نے مسترد کر دیا ہے، دوبارہ انہیں ملکی زمام کار سونپنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس لیے معزول صدور حسنی مبارک اور ڈاکٹر محمد مرسی کے دور میں حکومت میں رہنے والے کسی شخص کو نئی کسی بھی حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دیا جائے گا۔
قاہرہ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدارتی مشیر کا کہنا تھا کہ عوام نے ایک آزاد فضاء میں دستور پر ریفرنڈم میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے۔ حکومت کی جانب سے کسی پر کوئی جبر یا دباؤ نہیں تھاا اور نہ ہی ریفرنڈم میں دھاندلی ہوئی ہے۔ پوری دنیا نے 14 اور 15 دسمبر کو مصری عوام کی طویل طویل قطاروں کو دستور کی حمایت میں ووٹ ڈالتے دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچاس رکنی دستور ساز کمیشن نے اپنے ٹائم فریم کے دوران ہی دستور سازی کا کام مکمل کیا اور شیڈول کے
مطابق ریفرنڈم کا انعقاد عمل میں لانے کے بعد اس کے نتائج سے دنیا کو آگاہ کر دیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں مصطفیٰ حجازی کا کہنا تھا کہ نئے دستور کے تحت ملک میں آزادی صحافت، آزادی اظہار رائے اور پرامن احتجاج اور جلسے جلوس کی مکمل ضمانت فراہم کی گئی ہے لیکن کرپٹ عناصر یا مذہبی انتہا پسندی پھیلانے والوں کو اپنی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا مصر کو کرپٹ اور مذہبی ریاست نہیں بننے دیا جائے گا۔
مسٹر حجازی نے کہا کہ عبوری حکومت کی جانب سے باربار یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ قانون اور آئین کے دائرے کے اندر رہنے والوں سے ہرممکن تعاون کیا جائے گا لیکن قانون شکنی کرنے والوں کے لیے مصرمیں کوئی جگہ نہیں ہے۔ جوعناصرقانون ہاتھ میں لے کرانتہا پسندی کا راستہ اختیارکریں گے انہیں مصری سماج کا حصہ نہیں سمجھا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ عوام کے مسترد شدہ نظام حکومت کی واپسی کا اب کوئی امکان نہیں ہے۔ ہم ایک نئے دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ نئے اور موجودہ نظام حکومت میں تمام شہریوں کے بنیادی حقوق، انصاف اور انسانی عزت واحترام کا خیال رکھا گیا ہے۔ ہم اسی طریقے پر آگے بھی چلتے رہیں گے۔